گیلانی، نواز شریف سے عمران خان تک!

آخر کیوں؟
رئوف کلاسرا
وہی ہوا جس کی کم از کم عمران خان اور ان کے حامیوں کو توقع نہیں تھی۔
ایک اور سابق وزیراعظم اس وقت عدالت کے رحم و کرم پر ہیں۔ بظاہر ایک اور وزیراعظم کو توہین عدالت میں سزا ہوسکتی ہے جیسے کبھی یوسف رضا گیلانی کو ہوئی تھی۔
عدالت نے دو سماعتوں کے بعد عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے کہ انہوں نے عدالت سے اپنے ان کے ریمارکس بارے معافی مانگنے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے ان کے خلاف کاروائی ہورہی تھی۔
عمران خان کا سیاسی مستقبل یقینا خطرے میں ہے۔ شاید انہیں معاملے کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ ابھی بھی سمجھ رہے تھے کہ جیسے ماضی میں ایک دفعہ سپریم کورٹ نے انہیں توہین عدالت کے کیس میں وارننگ دے کر چھوڑ دیا تھا۔
اب بھی وہی ہوگا۔ عدالت نے یہ بات بھی وہیں کہی کہ آپ کو پہلے بھی وارن کیا گیا تھا لہذا آپ کو زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی۔
اگر پاکستانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو لگے گا کہ ہر دور میں سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف مسلسل ایکٹ کرتے رہے ہیں۔ اور یہی سیاستدان ایک دوسرے کو سزائیں دلوا کر نااہل کراتے رہے ہیں۔ پہلے یہ کام نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان بڑا عرصہ چلتا رہا۔ بینظیر بھٹو منظر سے غائب ہوئیں تو یہ پھر یہ کام زرداری گیلانی اور عمران خان کے درمیان چل پڑا۔ نواز شریف کے وزیر یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں شریک تھے لیکن کچھ عرصے بعد سب نے دیکھا تو وہی نواز شریف اور شہباز شریف کالے کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے سامنے میمو گیٹ سکینڈل پر کمشن بنوا کر لوٹے۔
مطلب ان کا تھا کہ گیلانی اور زرداری پر ملک دشمنی الزامات پر کاروائی کی جائے۔ نہ صرف حکومت کو برطرف کریں بلکہ حکومتی عہدے داروں خلاف ایکشن لیں۔
اس طرح عمران خان نے اس وقت کے وزیراعظم گیلانی صاحب کے خلاف پیٹشن فائل کی جب انہیں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے توہین عدالت پر سزا دی تھی لیکن انہیں وزیراعظم کےعہدے سے نہیں ہٹایا۔ اس پر گیلانی صاحب کچھ عرصہ وزیراعظم رہے لیکن عمران خان نے ایک وکیل کے زریعے ایک پیٹیشن فائل کی کہ اب عدالت انہیں سزا دے چکی ہے تو انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا جائے۔ اس پر افتخار چوہدری صاحب نے اس پیٹیشن پر وزیراعظم گیلانی کو فارغ کر دیا۔
عمران خان نے اس پر بہت بڑا کریڈٹ لیا تھا۔ اعتزاز احسن اس عملداری بینچ کے سامنے گیلانی صاحب کے وکیل کے طور پر پیش ہوئے تھے لیکن وہ وزیراعظم کو نہ بچا سکے۔
وقت کچھ آگے بڑھا۔ پانامہ سکینڈل سامنے آیا تو عمران خان سپریم کورٹ میں پیٹیشن لے کر گئے کہ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف اس کرپشن سکینڈل پر کاروائی کریں۔ اور پھر اس پیٹیشن پر نواز شریف برطرف بھی ہوئے اور جیل بھی گئے۔
یوں عمران خان کے کریڈٹ پر سیاسی کامیابیاں آئیں اور ان کے سپورٹرز کو یہ حوصلہ ہوا کہ عمران خان نے دو وزیراعظموں کو عہدوں سے ہٹوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
وہ اپنے تئیں اس ملک میں قانون کی بالادستی کے لیے کام کررہے تھے۔ وہ اس ملک کی آخری امید تھے جو سب کے خلاف اکیلے لڑ رہے تھے۔ اس طرح عمران خان کو اس وقت شہرت ملی اور سیاسی فائدہ ہوا جب ان کے خلاف حنیف عباسی صاحب کے مقدمے میں انہیں صادق اور امین قرار دیا گیا۔ عمران خان کو اگرچہ عدالتوں سے بڑا ریلیف بھی ملا جب کہ دوسری طرف ان کے مخالفین کو رگڑا لگتا رہا جس پر عدالتوں پر وہ سیاسی جماعتیں تنقید بھی کرتی رہیں۔
جب عمران خان وزیراعظم بنے تو عدالتوں سے شریف خاندان کو ملنے والے ریلف سے خوش نہیں تھے اور اس کا اظہار وہ بار بار اپنی پبلک تقریروں میں بھی کرتے رہے تھے۔ بلکہ کئی مواقع پر مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں کوئی عدالت انہیں توہین عدالت کا نوٹس نہ کرے جیسے یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہوا تھا۔
لیکن عمران خان کو ہمیشہ یہ احساس رہا ہے کہ وہ جو بھی بات کرتے ہیں وہی آخری حق اور سچ ہوتا ہے۔ وہ خود کو درست سمجھتے ہیں اور دوسروں کو غلط سمجھتے آئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ خوش قسمت سیاستدان ثابت ہوئے اور ان کے سب کام ٹھیک ہوتے چلے گئے۔
لیکن میرا خیال ہے ہر انسان کو اپنی قسمت اور تقدیر کو دھیان سے استمعال کرنا چاہیے کیونکہ یہ قسمت کسی وقت دھوکا بھی دے سکتی ہے۔ ایک وقت تھا بھٹو کا قسمت ساتھ دے رہی تھی تو وہ نہ ملک کے مارشل لاء ایڈمنسٹریڑ کے ساتھ ساتھ وزیراعظم بھی بن گئے۔ اپنے ابتدائی تین چار سالوں کا وہ طاقت ور انسان تھا۔ لیکن پھر چار سال بعد قسمت ساتھ چھوڑ گئی اور وہی بھٹو پھانسی جا لگا۔
یہی قسمت اور تقدیر کا کھیل ہم نے نواز شریف کے کیس میں دیکھا۔ ان کی خوش قسمتی دیکھیں کہ دو تین دفعہ وہ وزیراعلی پنجاب رہے اور پھر تین دفعہ وزیراعظم بھی رہے۔ اس سے زیادہ خوش قسمت کون ہوسکتا ہے۔ لیکن پھر وہی ہوا کہ ایک دن قسمت ان کا ساتھ بھی چھوڑ گئی اور وہ نہ صرف وزیراعظم کے عہدے سے برطرف ہوئے بلکہ جیل بھی گئے۔ چار پانچ سال ہونے والے ہیں وہ ابھی تک اس سے باہر نہیں نکل سکے اور اب مفرور زندگی لندن گزار رہے ہیں۔
عمران خان کے اردگرد خوشامدی ہجوم نے انہیں احساس دلا دیا ہے کہ وہ بہت غیرمعمولی انسان ہیں اور وہ بہت بڑے کام کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ غلط بات نہیں کہتے نہ وہ کرتے ہیں لہذا وہ جو کچھ بھی کہتے رہیں ان سے کوئی جواب طلبی نہیں ہوسکتی۔ اس اعتماد کی وجہ سے وہ بہت سارے اہم لوگوں اور اداروں سے سینگ اڑا بیٹھے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
اب یہی عدالت میں توہین عدالت کا معاملہ ایک معافی مانگ کر ختم کیا جاسکتا تھا لیکن آپ ایک اسٹیج پر آپ پہنچ جاتے ہیں جہاں آپ کی انا اور اپنی ذات سے محبت اس سطح پر پہنچ جاتی ہے جہاں ایک لفظ “معذرت” یا “معافی” آپ کے لیے اتنا بڑا ہوجاتا ہے کہ آپ اس پل کو عبور نہیں کرپاتے۔ آپ کو لگتا ہے کہ اگر آپ نے معافی مانگ لی تو آپ کی ذات کو بڑا خطرہ ہوجائے گا۔ آپ کے لاکھوں فین اور چاہنے والے کیا سمجھیں گے کہ آپ ڈر گئے؟
میں نے معافی مانگ لی تو لوگ کیا کہیں گے کہ خان ڈر گیا؟
جب بار بار آپ کو بتایا جائے کہ آپ پاکستان کے سب سے بڑے پاپولر لیڈر ہیں اور آپ کو کوئی ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کرسکتا تو آپ کی شخصیت میں وہ تبدیلیاں آتی ہیں جو آپ کے زوال کا سبب بنتی ہیں۔
تو کیا قسمت اب عمران خان کا بھی ساتھ چھوڑ رہی ہے جسے وہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں جیسے بھٹو اور نواز شریف کا ساتھ چھوڑ گئی تھی؟ یا عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ اس ملک میں بہت مقبول ہیں لہذا کوئی بھی عدالت یا جج انہیں سزا دیتے وقت بہت کچھ سوچے گی۔ ؟
دراصل ہر طاقتور اور مقبول انسان ایک ایسے اعتماد کا شکار ہوجاتا ہے جس کا اسے بعد میں بڑا نقصان ہوتا ہے۔ بات وہی ہے کہ بڑا آدمی یہی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس پر کبھی زوال نہیں آئے گا۔ یہی اعتماد اس کے زوال کا سبب بنتا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہےکہ جب امریکہ میں بل کلنٹن کا مونیکا لیونکسی کا سکینڈل سامنے آیا تھا تو اس پر انگریزی کے جریدے ٹائمز نے ایک خصوصی رپورٹ تیار کی تھی کہ آخر بڑے لوگ سکینڈلز میں کیسے پھنس جاتے ہیں؟؟یہ بڑے لوگ تو بڑے سمجھدار ہوتے ہیں پھر ان سے کیا ایسی غلطی یا غلفت ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ مصیبت میں پھنس جاتے ہیں اور زوال پذیر ہوتے ہیں؟
اس رپورٹ کا خلاصہ یہ تھا کہ ہر بڑا آدمی احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جس طرح ماضی میں وہ غلط صیح کرتا رہا سب نتائج اس کے حق میں نکلے لہذا اب بھی وہ جو کچھ کرتارہے گا اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ یہ سوچ بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک لے گئی، نواز شریف کو جیل لے گئی تو اب عمران خان بھی عدالتوں کے ہاتھوں اپنے سیاسی مستقبل کو خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔
اب اسے مکافات عمل، کرما کہیں یا پاکستانی جمہوریت کا حسن کہ انہی عمران خان کی پیٹیشنز پر پہلے 2012 میں یوسف رضا گیلانی برطرف ہوئے، پھر ان کی پانامہ پٹیشن پر2017 میں نواز شریف برطرف ہو کر جیل گئے، آج وہی عمران خان خودیوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی طرح عدالت کے سامنے ملزم بن کر کٹہرے میں کھڑے اپنی سزا کا انتظار کررہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

We are working hard for keeping this site online and only showing these promotions to get some earning. Please turn off adBlocker to continue visiting this site