کیا ایسا ممکن ہے؟

وقت کا منہ زور گھوڑا نہ جانے کس کے اشاروں پر اپنی مرضی سے موڑ مڑتا رہتا ہے اور اس پر سوار انسان اختیار کے سراب میں غم اور خوشی کی مالائیں گلے میں ڈالے دیکھتا رہ جاتا ہے۔ زندگی کی مختلف پگڈنڈیوں پر گھومتا پھرتا یہ حیوان بار بار ہماری ذات کے محفوظ علاقوں (سیف زون) کو تاخت و تاراج کرتا رہتا ہے اور ہر بار ریشم کے کیڑے کی طرح ہم ایک نیا آشیانہ تخلیق کرنا شروع کرتے ہیں، پھر کسی لمحے یکلخت تقدیر کا کوڑا پڑتا ہے اور وقت کا گھوڑا تڑپ کر ایک نئے راستے کی جانب گھوم جاتا ہے، انسان بے بسی سے ایک بار پھر سے مشقت شروع کر دیتا ہے۔

اگر اپنے تخیل میں ایک عالمگیر پیمانہ تخلیق کیا جائے تو اس کی ایک انتہا پر ترقی یافتہ معاشروں کے باسی ہیں جن کی اکثریت ایک ہی سیف زون میں زندگی بسر کر دیتی ہے، اگر کوئی تبدیلی آتی بھی ہے تو بہت موہوم سی ہوتی ہے۔ ان کے دامن آسائشوں سے بھرے رہتے ہیں اور ان پر نعمتوں کی بارش برستی رہتی ہے۔

اس عالمگیر پیمانے کی دوسری انتہا پر وہ معاشرے ہیں جہاں جنگ و جدل کے عفریت نے قدم جما لیے ہیں۔ وہاں کے باسیوں کو سیف زون تخلیق کرنے کے لیے نہ وقت میسر ہوتا ہے اور نہ ہی وسائل ان کی گرفت میں ہوتے ہیں۔ ان کے فیصلے فضاؤں سے برستی آتش و آہن کی بارش، متحارب قوتوں کے رہنما اور حکمران کرتے ہیں، عام آدمی کا اختیار فقط اتنا ہوتا ہے کہ اپنے پیاروں کے کٹے پھٹے اجسام دفنانے ہیں یا بچ جانے والوں کے لیے کوئی نئی پناہ گاہ ڈھونڈنی ہے۔

ان دونوں انتہاؤں کے درمیان بھی بے شمار درجے ہیں جہاں اختیار و بے بسی کی جنگ مستقل چھڑی رہتی ہے۔ ایک درجے پر وہ ہیں جنہیں تقدیر بچپن سے ہی ماں باپ کی شفقت کے بادلوں سے محروم کر کے زندگی کے تپتے صحرا میں پھینک دیتی ہے، تقدیر کے زہرخندہ ہونٹوں سے نکلے الفاظ محبتوں کے نخلستان کی تلاش میں انہیں بھگائے پھرتے ہیں۔ کچھ کم سنگین مگر بہت بے رحم صورتحال معاشرے کے نچلے طبقوں کی ہوتی ہے۔ اختیار ان کے پاس بھی کم ہوتا ہے اور انہیں بھی ہر روز ایک نیا سیف زون تخلیق کر کے پھر اسے مسمار ہوتے دیکھنا پڑتا ہے۔

آج کے دور میں کورونا وائرس نے ایک عجب کام کیا ہے، تخیل کے پیمانے کو اس نادیدہ مخلوق نے کچھ اس طرح روند کر رکھ دیا ہے کہ اس کے دونوں سرے اور ان کے درمیان موجود تمام درجات گڈمڈ ہو کر رہ گئے ہیں۔ آسائشوں کی رم جھم میں اٹکھیلیاں کرتے ترقی یافتہ ممالک کے باشندے اس بے اماں دھوپ کی تپش محسوس کر رہے ہیں جس کی شدت کمزور قوموں کے افراد کو تمام عمر شرابور رکھتی ہے۔ امیر، غریب، محروم، مراعات یافتہ، حاکم، محکوم سب اس کے سامنے لرزاں و ترساں ہیں۔ ہر انسان ایک دوسرے کو خوف سے دیکھ رہا ہے، امان کی تلاش میں سب اپنے اپنے سایوں سے بھاگ رہے ہیں۔

ہر کسی کی ذات میں پھیلے محفوظ جزیروں کو اس سیلاب بلاخیز کی تند خو لہروں نے ڈبو دیا ہے، ماضی و حال کے طاقتور ترین ممالک اس نظر نہ آنے والی بلا کے آگے بے بس نظر آتے ہیں، دعائیں ہیں کہ آسمانوں سے ٹکرا رہی ہیں، فریادیں ہیں کہ عرش کے پائے ہلا رہی ہیں، نگاہیں ہیں کہ کسی معجزے کی راہ تک رہی ہیں۔ اپنے مستحکم نظام کو فخرو ناز سے دیکھنے والی عالمی طاقتیں اس کا خصوصی نشانہ ہیں، کمزور ممالک کو سو طرز کی فرمائشوں کے بعد قرض کی عطا بخشنے والے خود اپنی بقا کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ تخیل کے پیمانے پر سب مفلس نظر آتے ہیں، تمام درجوں کے رہائشی ایک ہی خواہش کے اسیر بن چکے ہیں۔

خوف کی اس فضا میں خواہش نما ایک سوال بار بار دل کی گہرائیوں سے ابھرتا ہے ۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ اس سیلاب بلا کے گزرجانے کے بعد نسل انسانی تمام درجوں پر ایک جیسی نعمتیں، آسائشیں اور سہولتیں بکھیرنے کا فیصلہ کر لے؟ جس وقت سب لوگ نئے آشیانے تعمیر کرنے لگیں تو چند اینٹیں الگ کر کے ان افراد میں بانٹ دیں جو محرومی کے صحرا میں اپنے لیے کوئی جائے اماں تلاش کر رہے ہوں؟ فرض کریں اگر ایسا ہو جائے تو یہ دنیا کسقدر خوبصورت ہو جائے گی۔۔۔ پھر ملک شام کا کوئی معصوم بچہ ساحل سمندر پر بے جان پڑا نظر نہیں آئے گا اور کوئی بھی افغان مہاجر دربدر بھٹکتا دکھائی نہیں دے گا۔

مگر سوال پھر یہی ہے ۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے؟

About Post Author

کمنٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

Adblock Detected

We are working hard for keeping this site online and only showing these promotions to get some earning. Please turn off adBlocker to continue visiting this site