
جرمنی میں کورونا سے اموات کی شرح دنیا میں سب سے کم کیوں؟ ایک تفصیلی رپورٹ
اس وقت کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اور سب کی نگاہیں اس کے متاثرین، اموات اور صحتیابی کے اعدادوشمار پر جمی ہوئی ہیں۔
جب ہم مختلف ممالک کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حیرت انگیز بات سامنے آتی ہے کہ جرمنی میں 25 مارچ تک کورونا کے 35،714 مصدقہ مریض سامنے آئے جبکہ وہاں 181 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اگر دیگر ترقی یافتہ ممالک کو دیکھا جائے تو ان کے مقابلے میں جرمنی میں کورونا سے ہونے والی اموات کی شرح 0.4 فیصد ہے جبکہ برطانیہ میں یہ 4.6 اور اٹلی میں 9 فیصد ہے۔
اگرچہ ابھی اس وبا کا ابتدائی مرحلہ ہے اور حتمی نتائج نکالنا ممکن نہیں تاہم جرمنی میں اسقدر کم شرح اموات پر ریسرچرز نے تحقیق شروع کر دی ہے۔
اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ جرمنی نے کورونا کی وبا کا مقابلہ دیگر یورپی ممالک کی نسبت بہتر انداز میں کیا ہے۔
اسپین میں ایک ہی رات میں کورونا وائرس سے ریکارڈ 700 سے زائد ہلاکتیں
کورونا وائرس: پاکستان میں ایک لاکھ افراد کیلئے صرف ایک وینٹی لیٹر
چین کے 21 سالہ کورونا مریض ٹائیگر یی کی کہانی، جسے زندگی موت سے واپس چھین لائی
اس وقت یورپ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اٹلی میں بڑی عمر کے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے جبکہ جرمنی اس حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔
تاہم ایک حیرت انگیز بات یہ سامنے آئی ہے کہ اٹلی میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی اوسط عمر 63 سال، برطانیہ میں 64 جبکہ جرمنی میں یہ صرف 46 سال ہے۔
رابرٹ کوچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈیٹا کے مطابق جرمنی میں کورونا کا شکار ہونے والوں میں 80 فیصد 60 سال کی عمر سے کم افراد ہیں اور یہ شرح اموات میں کمی کی ایک بڑی وجہ سمجھی جا رہی ہے کیونکہ یہ وبا بڑی عمر کے افراد کے لیے زیادہ خطرناک سمجھی جاتی ہے۔
ایک مفروضہ یہ بھی بیان کیا جا رہا ہے کہ جرمنی میں جن افراد میں سب سے پہلے وائرس پھیلا وہ آسٹریا یا اٹلی میں سکائی انگ (برف پر پھسلنے والے کھیلوں) کے شوقین تھے اس لیے ان کی قوت مدافعت مضبوط تھی۔
اس کے برعکس اٹلی میں یہ وائرس ایسے علاقوں میں پھیلا جہاں بڑی عمر کے افراد کی تعداد زیادہ تھی اور وہ کمزور قوت مدافعت کے مالک تھے۔
بعض ریسرچر اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ جرمنی میں بھی یہ مرض اگر بڑی عمر کے افراد تک پہنچا تو شرح اموات بڑھ سکتی ہے۔
کورونا کے شکار اٹلی کے 72 سالہ پادری نے قربانی کی لازوال داستان رقم کر دی
کورونا وائرس کا آغاز چین سے نہیں اٹلی سے ہوا؟ نئے حیران کن حقائق منظرعام پر
جنوبی کوریا کی مثال بھی اس مفروضے کو درست ثابت کر رہی ہے جہاں کورونا وائرس کے متاثرین میں 60 فیصد خواتین ہیں اور ایک تہائی افراد کی عمریں 20 سے 29 کے درمیان ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں شرح اموات 1.38 فیصد ہے۔
لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے پروفیسر مارٹن ہبرڈ کا کہنا ہے کہ اٹلی کے مقابلے میں جرمنی ابھی اس وبا کے ابتدائی مراحل میں ہے، آئی سی یو میں دو سے تین ہفتے رہنے کے بعد لوگ کورونا سے مرنا شروع کرتے ہیں، اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ یہ اعدادوشمار کچھ دنوں تک تبدیل ہونا شروع کر دیں۔
ایک نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ جرمنی ان چند یورپی ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ کریٹیکل کئیربیڈز موجود ہیں، 2011 میں کیے گئے ایک مطالعہ کے مطابق جرمنی میں ایک لاکھ افراد کے لیے 29.2 کریٹیکل کئیر بیڈز موجود تھے جبکہ اٹلی میں یہ شرح 12.5 فیصد، برطانیہ میں 6.6 فیصد اور پورے یورپ کی اوسط 11.5 ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں کورونا کے 35،714 متاثرین ہونے کے باوجود ابھی تک بہت سے کریٹیکل کئیر بیڈز خالی پڑے ہیں اور ان کی صحت کی سہولیات پر بہت زیادہ بوجھ نہیں پڑا۔
یونیورسٹی آف ہینوور کے پروفیسر آف میڈیسن، میتھیئس سٹال کا کہنا ہے کہ شمالی اٹلی میں کورونا زیادہ پھیلا اور یہاں آئی سی یو بیڈز پہلے سے ہی کم تھیں اور وبا کے پھیلاؤ کے بعد مریضوں کے لیے کم پڑ گئے، اس کے برعکس جرمنی میں کورونا ہموار انداز میں مختلف علاقوں میں پھیلا جس کی وجہ سے کسی ایک علاقے کی صحت کی سہولیات پر دباؤ نہیں پڑا۔
تاہم اوپر بیان کیے گئے تمام اعداد و شمار کو پورے یقین کے ساتھ تسلیم نہیں کیا جا سکتا، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ برطانیہ اور دیگر ممالک میں بہت شدید بیمار افراد کا کورونا کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس وبا کے حقیقی متاثرین کی تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔
اس کے برعکس جرمنی معمولی علامات رکھنے والے افراد کے بھی ٹیسٹ لے رہا ہے اور اسی وجہ سے اس ملک میں کورونا کے کیسز کی تعداد زیادہ سامنے آئی ہے۔
رابرٹ کوش انسٹی ٹیوٹ کے صدر لوتھر ویلر کا کہنا ہے کہ جرمنی کی لیبارٹریاں ہر ہفتے ایک لاکھ 60 ہزار کورونا ٹیسٹ کر سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے جنوبی کوریا اور جرمنی میں وائرس کے متاثرین کی حقیقی تعداد سامنے آ رہی ہے، جبکہ دیگر ممالک میں ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث اصل تعداد چھپی ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ سماجی عادات کا بھی وائرس کے پھیلاؤ میں بڑا ہاتھ ہے، یہ سوالات اہم ہیں کہ کیا جرمنی کے مقابلے میں اٹلی کے لوگ رخسار پر زیادہ بوسہ دینے کی روایت رکھتے ہیں؟ کیا اس ملک میں پوتے پوتیاں اپنے دادا اور دادی کو ملنے زیادہ جاتے ہیں؟
اسی طرح زیادہ آبادی کا ایک ہی جگہ ہونا بھی ایک اہم عامل ہے، لندن میں گزشتہ کئی دنوں میں ٹرینیں بھری ہوئی ہیں جبکہ لوگوں نے بارز اور شراب خانوں میں جانا ترک نہیں کیا جس کی وجہ سے کورونا زیادہ پھیل رہا ہے۔
حال ہی میں برطانوی حکومت نے اینٹی باڈی ٹیسٹ کرنے کے لیے ساڑھے تین لاکھ کٹس کا آرڈر دیا ہے تاکہ ان علاقوں کو پوری طرح چیک کیا جائے جہاں کورونا زیادہ پھیلا ہوا ہے۔
جب زیادہ تر مریضوں کا ٹیسٹ ہو جائے گا تو کورونا کے متاثرین کی حقیقی تعداد بھی سامنے آ جائے گی۔