
جنوبی کوریا کی کورونا وائرس کے خلاف کامیابی میں دنیا کے لیے چار اہم سبق
جنوبی کوریا چین کے بعد دنیا کا دوسرا ملک ہے جو کورونا وائرس وبا کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
کورونا وائرس وبا کے خلاف جنگ میں جنوبی کوریا کی مثال اس لیے اہم ہے کہ پانچ کروڑ آبادی کے اس ملک نے چین کی طرح لوگوں کی نقل و حرکت اور اظہارِرائے پر پابندیا ں لگائے بغیر اور امریکہ، یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک کی طرح معاشی طور پر نقصان دہ لاک ڈاؤن کئے بغیر کورونا وائرس وبا پر کافی حد تک پا لیا ہے۔
کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے سخت پالیسیاں اپنانے والے ممالک میں چین کو چھوڑ کر باقیوں میں اس وبا کے متاثرین ہزاروں کی تعداد میں بڑھ رہے ہیں مگر جنوبی کوریا میں نئے رپورٹ ہونیوالے کیسز میں بڑی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
اب جبکہ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے ہونیوالی اموات 21 ہزار سے تجاوز کر گئی ہیں اور کورونا وائرس کیسز کی تعداد چار لاکھ 69 ہزار تک جا پہنچی ہے تو دنیا بھر کے ماہرین جنوبی کوریا کی حکمتِ عملی کا بغور جائزہ لے رہے۔
جنوبی کوریا میں فروری کے اواخر میں مارچ کے اوائل عرصہ میں کورونا وائرس کے شکار افراد کی تعداد چند درجن سے سینکڑوں اور پھر ہزاروں تک جا پہنچی تھی۔
29 فروری کو جنوبی کوریا میں ایک دن میں سب سے زیادہ 909 کیسز سامنے آئے تھے۔ مگر اس کے بعد نئے کیسز کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہونے لگی۔ گزشتہ روزجنوبی کوریا میں کورونا وائرس کے 104کیسز سامنے آئے۔
جنوبی کوریا کی مثال سے دنیا کیا سیکھ سکتی ہے؟
جنوبی کوریا کی کورونا وائرس کے خلاف حکمت ِ عملی دیگر ممالک کی نسبت واضح اور آسان ہے۔ اس میں فوری ایکشن، بڑے پیمانے پر لوگوں کے ٹیسٹ، مشتبہ مریض والے علاقے میں مزید کی کھوج اور شہریوں سے اہم معاونت لینا شامل ہے۔
چند ممالک نے جنوبی کوریا کے طریقوں پر عمل درآمد میں دلچسپی دکھائی ہے مگر انہیں دیر ہوچکی ہے کیونکہ اب وہاں وبا اس قدر پھیل چکی ہے کہ اس پر جلد قابو پانے میں ناکامی کا خدشہ ہے۔
فرانس کے صدر اور سویڈن کے وزیراعظم کی جانب سے جنوبی کوریا کے صدر سے رابطہ کر کے ان سے کورونا وائرس وبا کے پھیلاؤ روکنے کیلیے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات فراہم کرنے کیلیے درخواست کی گئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے جنوبی کوریا کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس وبا پر قابو پانا اگرچہ مشکل ہے مگر جنوبی کوریا نے ثابت کر دیا ہے کہ ایسا کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کو جنوبی کوریا کی کورونا وائرس وبا پر قابو پانے کی مثال سے سیکھنا چاہیے۔
دوسری جانب جنوبی کوریا حکام کی جانب سے انتباہ کیا جا رہا ہے کہ ایسے حالات میں جب ان کے اردگرد دیگر ممالک میں وبا پھیل رہی ہے تو انکی کامیابیاں عارضی ثابت ہو سکتی ہیں۔
اس کے باوجود امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے سابق کمشنر اسکاٹ گوتلیب کئی بار جنوبی کوریا کو سراہتے ہوئے ”ماڈل“ قرار دے چکے ہیں۔
انہوں نے ٹویٹر پر لکھا کہ جنوبی کوریا ثابت کر رہا ہے کہ کورونا وائرس کو اسمارٹ اور جارحانہ صحت کا نظام شکست دے سکتا ہے۔
پہلا سبق: وبا کو بحرانی شکل اختیار نہ کرنے دیں
جنوری کے آخر میں جنوبی کوریا میں کورونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آنے کے بعد سرکاری حکام نے کئی میڈیکل کمپنیوں کے ساتھ اجلاس کیا اور انہیں کہا کہ بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کٹس تیار کریں۔
دو ہفتوں کے اندر اندر روزانہ ہزاروں ٹیسٹ کٹس بننے لگیں۔ اب جنوبی کوریا میں روزانہ ایک لاکھ ٹیسٹ کٹس بن رہی ہیں۔
جنوبی کوریا حکام کا کہنا ہے کہ اب ٹیسٹ کٹس کو بیرون ملک فروخت کرنے کیلیے وہ 17 ممالک سے رابطے میں ہیں۔
جنوبی کوریا نے 25 لاکھ آبادی کے شہر دایگو،جہاں ایک مقامی چرچ سے کورونا وائرس پھیلا تھا، میں فوری ایمرجنسی اقدامات اٹھائے۔
‘کی موران’ جنوبی کوریا کے حکومتی مشیر اور وبا کے ماہر ہیں، ان کا کہتا ہے کہ کورونا وائرس پر قابو اس لیے پا لیا گیا کیونکہ انہیں وائرس کے بڑے ذریعہ یعنی چرچ کا پتہ چل چکا تھا۔
دوسرا سبق : جلد، بار بار اور محفوظ طریقے سے ٹیسٹ کریں
جنوبی کوریا کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کا سب سے زیادہ ٹیسٹ کرنیوالا ملک ہے۔ زیادہ ٹیسٹو ں کی وجہ وائرس سے متاثرہ افراد کو فوری الگ تھلگ کرنے اور علاج کرنے کا موقع مل گیا۔
جنوبی کوریا کے وزیرخارجہ نے ٹیسٹوں کو ان کے ملک میں کم اموات کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی وجہ سے وائرس کا مزید پھیلاؤ کم ہونے کے ساتھ ساتھ متاثرہ مریض کا فوری علاج بھی شروع ہوجاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کو مسلسل پیغامات جاری کئے گئے جن میں کہا گیا کہ وہ اپنے کورونا وائرس ٹیسٹ کرائیں۔
تیسرا سبق: کورونا مریض سے رابطے میں آنے والوں کی کھوج اور انہیں الگ تھلگ کرنا
جب کسی شخص میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو جائے تو جنوبی کوریا میں محکمہ صحت کے حکام اس مریض کی حالیہ نقل و حرکت کا کھوج لگاتے ہیں اور جن افراد سے اس کی ملاقات ہوئی ہو، ان کا ٹیسٹ کرتے ہیں۔ اگر ضروری ہو تو ان افراد کو الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔
اس عمل سے محکمہ صحت کے حکام کو کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کے نیٹ ورک کا پتہ چلتا ہے۔
چوتھا سبق : عوام سے مدد لیں
کورونا وائرس وبا کے دوران ہیلتھ ورکرز اور باڈی ٹمپریچر اسکینرز کی کمی کی وجہ سے عوام کی مدد لینا بہت ضروری ہے۔
جنوبی کوریا کے نائب وزیر صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس وبا پر قابو پانے کیلیے ملک کے رہنماؤں نے یہ نتیجہ نکالا کہ عوام کو پوری طرح آگاہ رکھا جائے اور انکی مدد بھی لی جائے۔
جنوبی کوریا میں عوام نے کورونا وائرس سے نمٹنے کیلیے حکومتی کوششوں کی حمایت کی جس سے اس جنگ میں اعتماد بڑھا اور وائرس کا خوف کم ہوا۔
جنوبی کوریا کے خارجہ امور کے نائب وزیر ’لی تائی ہو‘کے مطابق اس عوامی اعتماد سے شہری شعور میں اضافہ کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ تعاون میں بھی اضافہ ہوا۔