
دستار انہیں دی ہے جو سر ہی نہیں رکھتے !
محمد قیصر ممتازخیرپوری ایڈوکیٹ
مہنگای کا جن بے قابو ہو کر پاکستان بھر کے محلوں میں خوفناک انداز میں ہنگامہ آراٸی کر رہا ہے عوام شدید کرب میں مبتلا ہیں ایک عام آدمی کیسے اپنے گھر کا چولہا جلاتا ھے کسی کو کوٸی غرض نہیں سیاستدانوں کو اپنی پڑی ہے انہیں کوی غرض نہیں عوام الناس پر کیا بیت رہی ہے انہیں بس کرسی کی فکر ہے کوٸی بچانےکےچکر میں ہے تو کوٸی ہاۓ کرسی ہاۓ کرسی کے چکر میں ہے غریب کے گھر چولہا کیسے جلتا ہے جلتا بھی ہے یا نہیں لاقانونیت عروج پر ہے ہر شخصں بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہے رہی سہی کسر گراں فروشی نے پوری کر دی ہے دکاندار دگنا قیمتیں وصول کر رہے ہیں کوٸی پوچھنے والا نہیں ایسا لگتا ہے یہ چھوٹی سی بات ہے مگر یہ دور حاضر کا اہم مسٸلہ ہے ایسے کٸی مسٸلے ارباب اختیار کی توجہ کے منتظر ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہیں حکومت ہے ہی نہیں اس بے یقینی کا خاتمہ کیسے ہوگا کو سوچنا ہی نہیں چاہتا چھوٹی چوریاں اس ملک کا بہت بڑا جرم ہے بڑی چوریاں اس قوم کے بااختیار لوگوں کا محبوب ” مشغلہ” ہے کوٸی پکڑ نہیں سکتا متوسط طبقہ تیزی سے غربت کی لکیر تلے جا رہا ہے اھم عہدوں پر بیٹھے لوگ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں کیا حضرت علامہ محمد اقبال نے ایسے مسلمان ملک کا خواب دیکھا تھا۔۔ کیا یہ قاٸداعظم کا پاکستان ہے جن کو حالات سدھارنا تھے وہ خود مال پانی پر لگ گۓ کیا تار یخ یہ سیاہ باب فراموش کر دے گی شاید کبھی نہیں
اے قاسمِ اشیا تری تقسیم عجب ہے
دستار انہیں دی ہے جو سر ہی نہیں رکھتے
اس نفسا نفسی کا آخر حل کیا ہے کیا ہمیں کسی بے رحم احتساب کی ضرورت ہے عدالتوں کا یہ حال ہے کہ وہ ساٸیلن کی چھوٹی موٹی غلطی پکڑ کر تذلیل کرنے کا کوٸی موقع ضاٸع نہیں کرتے ان کا اولین مقصدانصاف کی فراہمی ہے مگر اس مملکت خدا داد میں ہر بات عجیب و غریب ہے دنیا نے تو فرعونوں کی ممیوں کو حنوط کر کے قاہرہ مصر کے میوزیم میں لا رکھا یہاں ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ھوگا بس اختیار ملنے کی دیر ہے ایک نیا نویلہ فرعون دیکھنے کو ملے گا کہیں پٹواری کی صورت میں کہیں یوٹیلٹی سٹور کےانچارج کی شکل میں کہیں نکے تھانیدار کی صورت میں ۔۔کس کس کا تذکرہ کیا جاۓ اس حمام میں وکیل جج علمإ سب ننگے ہیں مگر ہاں مایوسی کفر ہے اس ظلم کی آخر کوٸی اخیر تو ہونی چاہیے ہمیں “خود احتسابی ” اپنانا ھوگی اپنی اصلاح کرکے کم از کم ہمیں یقین ہو جاۓ گا کہ ایک شخص سدھر گیا۔ حکمرانوں سیاستدانوں کو بھی سوچناچاہیے مل بیٹھ کر اس ملک کے باسیوں کے دکھوں کا حل ڈھونڈیں باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں تاکہ عوام کی پریشانیاں کچھ کم ہوں۔اس کے علاوہ احتساب سب کا نعرہ لگا نا ھوگا بھلے وہ بارہ ارب ڈالر کے اثاثوں کا الزام لے کر رخصت ھونے والا قمر باجوہ ہو یا ایک عام کلرک کیوں نہ ہو نہیں تو پھر قومی سلامتی تک خطرے میں ہے اللہ نہ کرۓ آمین
سوچیےگا ضرور