
ڈیزرٹ ریلی———— جام مظہر کے ساتھ
شفیق لغاری
یوں تو صحافی ہونے کے ناطے بڑے بڑے ہوٹلوں میں بڑے بڑے لوگوں سے ملاقات روٹین کی بات ہے مگر جام مظہر کی دعوت اور صحبت قدرے دیگر است۔ پی ٹی وی کے رپورٹر ہیں بلا کے کمپنی باز، اور چھتیں اڑا دینے والے قہقہے لگانے اور گفتگو میں حیرت اور مسرت کا جہاں اور آسماں پیدا کردینے والے۔ ایسے زندہ دل انسان میں نے زندگی بھر نہیں دیکھے۔ ایک بار کہنے لگے،ڈیزرٹ ریلی کی کوریج کرنے چولستان جارہا ہوں۔ آپ بھی ساتھ چلیں۔ آپ کو ڈیزرٹ اور اپنے علاقے کی سیر کراؤں گا۔اور ڈیزرٹ ریلی تو ہوگی ہی۔ میں تیار ہوگیا۔ ڈیزرٹ ریلی کیا تھی ہزاروں کلومیٹر لق ودق صحرا،حدنظرتک ریت کے ٹیلے،زرق برق لباس، مغربی سیاح،حسین چہرے،عجیب وغریب جیپیں،میڈیا کی یلغار اور کیمروں کی بھر مار۔ گویا مشرق میں مغرب کا سماں تھا۔ ہر طرف جوڑے اٹھکیلیاں کرتے پھر تے تھے۔ جیپ ریلی کا ٹریک ریت کے ٹیلوں میں زِگ زیگ چلتا ہوا افق تک جارہا تھا ۔ وہیں میرے دوست ڈاکٹر عرفان قیصرانی،دنیا نیوز کے رپورٹر محمد عمران،اسلم لُڑکا اور اے بی این کے رپورٹر شاہد قریشی مل گئے۔ جام مظہر نے ہم سب کو چوہدری مبشر اور نواب نادر مگسی سے ملوایا جو ہر بار ڈیزرٹ ریلی جیتنے کا عزاز حاصل کرتے ہیں۔ جام مظہر نے بتایا ،چوہدری مبشر میرے دوست ہیں۔ گاڑیاں دوڑانے اور ریس دیکھنے کے دیوانے ہیں۔ ہر بار ریلی میں شرکت کرتے ہیں ۔ ریلی شروع ہونے لگی تو چوہدری مبشر نے جام مظہر کو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ بلاخوف وخطر جام مظہر گاڑی دوڑانے لگے۔مقابلے سے واپس آکر جام مظہر نے بتایا! جب مقابلہ شروع ہونے لگا اور ایک ہی وقت میں تمام گاڑیاں اسٹارٹ ہوئیں تو گاڑیوں کی گھن گرج سے دل دہلتا تھا۔ ریلی شروع ہوتے ہی ہر طرف دھول،دھویں اور ریت کے بادل امڈ آئے-مانٹیرنگ گاڑیاں،اور دنیا بھر کے میڈیا کیمرے محو سفر تھے-ایسا دیو مالائی سفر میں نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا-میرا تو ریلی میں شریک نواب نادر مگسی سے مچیٹا پڑگیا۔ اب سین یہ تھا کہ ہماری گاڑیاں برابر جارہی ہیں-ہائو ہو کا شور،خوف اور دباؤ سے میری رگوں میں گردش خون رکنے لگی-میں نے اعصاب پر کنٹرول رکھا- لوگ انگشت بدنداں تھے کہ نواب صاحب جیسے ماہر اور قدآور ریسر سے کس لونڈے کو مقابلے کی جرات ہوئی اور کیوں کر ہوئی؟دنیا بھر کے کیمروں نے مجھے زوم کیا دونوں گاڑیاں سیکڑوں کلومیٹر کی رفتار سے دوڑ رہی تھیں۔ لگتا تھا گویا رک گئی ہیں۔نواب نادر مگسی کی جیپ میرے برابر آئی، یوں میں نے شان بے نیازی اور ادائے دل ربائی سے ان پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی تو انہوں نے میری طرف دیکھ کر مٹھی بند کرکے اور انگوٹھا ہوا میں بلند کرتے ہوۓ کہا ویل نوجوان ———-ویل ڈن-
اس اثنا میں انہوں نے ایک ایکسیلیٹر تھوڑا سا دبایا اور گاڑی زن سے گول اسبات کراس کر گئی اور میں نے آنکھیں بند کرلیں۔
وہ بزم میں آۓ اتنا تو سب نے دیکھا مؔیر
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی