
سپریم کورٹ نے قیدیوں کی رہائی کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم معطل کر دیا
ایسا نہیں ہوسکتا کہ آفت میں لوگ اپنے اختیارات سے باہر ہو جائیں، چیف جسٹس گلزار احمد
اسلام آباد: کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات کیوجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کا 400 سے زائدانڈر ٹرائل قیدیوں کی رہائی کا حکم سپریم کورٹ آف پاکستان نے معطل کر دیا۔
سپریم کورٹ نے کورونا وائرس کے حوالے سے عدالتوں کی جانب سے جاری فیصلے معطل کردیے ہیں اور صوبائی حکومتوں کو قیدیوں کو رہا کرنے کے مزید احکامات دینے سے بھی روک دیا ہے۔
اس ضمن میں وفاق، تمام ایڈووکیٹس جنرل، آئی جی اسلام آباد اور انتظامیہ کو نوٹسز بھی جاری کردیے گئے ہیں۔
صوبائی ہوم سیکرٹریز، آئی جیز جیل خانہ جات، پراسیکیوٹر جنرل نیب، اے این ایف کو بھی نوٹسز جاری کردیے گئے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ ہائیکورٹ نے دہشتگردی کے ملزمان کے علاوہ سب کو رہا کردیا، ایسا نہیں ہو سکتا کہ آفت میں لوگ اپنے اختیارات سے باہر ہو جائیں، یہ اختیارات کی جنگ ہے. ان حالات میں بھی اپنے اختیارات سے باہر نہیں جانا۔
انہوں نے کہا کہ کسی نے ایک ہفتے پہلے جرم کیا تو وہ بھی باہر آ جائے گا،ایسی صورت میں شکایت کنندہ کے جذبات کیا ہوں گے؟ جن کی دو تین ماہ کی سزائیں باقی رہتی ہیں ان کو چھوڑ دیں۔
لارجر بینچ میں موجود جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس انداز سے ضمانتیں دینا ضمانت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ہمیں خوفزدہ نہیں ہونا بلکہ پرسکون رہ کر فیصلہ کرنا ہے، ہمارا دشمن مشترکہ اور ہمیں متحد ہو کر اس مقابلہ کرنا ہے۔
پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مظہر عالم میانخیل، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس محمد امین بھی شامل تھے۔
کورونا وائرس: بھارتی سپریم کورٹ میں مقدمات کی سماعت آن لائن ہوگی
امریکہ میں جان بوجھ کر کورونا وائرس پھیلانے والوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمے درج ہوں گے
یہ احکامات ایڈووکیٹ نایاب گردیزی کے توسط سے دائر کی گئی راجہ محمد ندیم کی درخواست پر جاری کیے گئے، عدالت نے شیخ ضمیر حسین کو عدالتی معاون بھی مقرر کیا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے رہائی کے احکامات قومی جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کے فیصلے کے برعکس ہیں کیونکہ کمیٹی نے کورونا وائرس پر ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا جس میں تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز بھی شامل تھے تاہم اس طرح سے قیدیوں کو رہا کرنے سے متعلق کوئی بھی فیصلہ لینے سے گریز کیا گیا تھا۔
درخواست کے مطابق رہائی کے احکامات ریاست کے تین ستون کے نظریے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ کورونا جیسی ایمرجنسی کی صورتحال میں صرف حکومت ہی ایسے قیدیوں، جن کے مقدمات زیر سماعت ہیں، کی رہائی کے متعلق پالیسی سازی کر سکتی ہے جبکہ عدالت صرف قانون کی تشریح کے لیے ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ جتنے اختیارات سپریم کورٹ کے پاس ہیں اتنے اختیارات ہائی کورٹ کے پاس نہیں۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری ہونے سے متاثرہ افراد کو ان کے آئینی حقوق سے نہ صرف محروم رکھا گیا ہے بلکہ جس انداز میں انکی رہائی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، وہ آئینی مینڈیٹ اور آئینی حقوق کے برخلاف ہے، اس فیصلے سے آئین کے آرٹیکل 10-A کی خلاف ورزی بھی ہوئی ہے۔
درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی درخواست کی گئی ہے جسکی سماعت 30 مارچ کو لارجر بینچ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں کریگا۔
واضح رہے کہ رہائی کے احکامات سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ کو جیل حکام کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی تھی جس کے مطابق اڈیالہ جیل میں 2174 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے جبکہ وہاں 5001 قیدیوں کو رکھا گیا ہے جن میں سے 1362 افراد اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔
زیادہ تر انڈر ٹرائل قیدیوں کی عمر 55 سال سے زیادہ ہے جنہیں سنجیدہ بیماریاں لاحق ہیں جن کا علاج قید میں رہتے ہوئے نہیں کیا جا سکتا۔