
کیا کورونا وائرس ووہان کی لیب میں تخلیق کیا گیا اور وہیں سے دنیا میں پھیلا ہے؟
ووہان شہر کے مضافات میں واقع ایک بائیو سیفٹی لیبارٹری پر امریکہ نے الزام عائد کیا ہے کہ کورونا وائرس یہیں تیار ہوا تھا اور غلطی سے لیب سے باہر منتقل ہوا جس کے باعث اس وقت پوری دنیا میں تباہی پھیل گئی ہے۔
چین کے سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے لیکن شہر میں اس قسم کی لیپ کی موجودگی ہر قسم کی افواہوں کو پھیلا رہی ہے۔
امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے بھی کہا ہے کہ ان کا ملک اس بات کی مکمل تحقیقات کر رہا ہے کہ کورونا وائرس کہاں سے آیا ہے۔
ووہان کی لیب کیا ہے؟
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق چائنا سینٹر فار وائرس کلچر کلیکشن نام کا یہ ادارہ پورے ایشیا میں وائرس کا سب سے بڑا بنک قرار دیا جاتا ہے جس میں 1500 سے زائد وائرس کی مختلف اقسام محفوظ ہیں۔
ان میں دنیا کے خطرناک ترین، کلاس 4، وائرس موجود ہیں جو ایک انسان سے دوسرے انسان تک منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان میں ایبولا بھی شامل ہے جس نے ایک مرتبہ دنیا میں تباہی پھیلائی تھی۔
4 کروڑ بیس لاکھ ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والی یہ لیب 2015 میں مکمل ہوئی اور 2018 میں اسے کھولا گیا۔
3000 اسکوائر میٹر پر پھیلی پی 4 لیب ووہان کے مضافات میں جنگلوں سے بھری پہاڑیوں میں واقع ہے۔
کیا ووہان کی اس لیب سے کورونا وائرس پھیلا ہے؟
واشنگٹن پوسٹ اور فاکس نیوز نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ یہ وائرس حادثاتی طور پر لیب سے باہر آیا ہو۔
واشنگٹن پوسٹ نے امریکہ کے سرکاری پیغامات کے حوالے سے بتایا ہے کہ اعلیٰ حکام نے اس لیب میں حفاظت کے غیرمناسب انتظامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
فاکس نیوز کے مطابق ہو سکتا ہے کہ کورونا وبا کسی ایسے شخص کے ذریعے پھیلی ہو جو اس لیب میں چمگادڑ کے وائرس سے متاثر ہوا اور پھر اس نے ووہان شہر میں یہ وبا پھیلا دی۔
اس حوالے سے ایک سوال پر صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم یہ بات بار بار سن رہے ہیں اور امریکہ اس کی مکمل تحقیقات کرائے گا۔
لیب کی انتظامیہ نے اس حوالے سے کوئی کمنٹ نہیں دیا البتہ انہوں نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں ان افواہوں کی مکمل تردید کی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ انہیں ایک نئے وائرس کا نمونہ 30 دسمبر کو موصول ہوا، دو فروری کو اس کا جینوم سیکوئنس بنا لیا گیا اور 11 جنوری کو عالمی ادارہ صحت کو اس وائرس کے متعلق معلومات فراہم کر دی گئی تھیں۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جمعہ کے روز ان تمام افواہوں کو رد کر دیا تھا۔
سائنسدان اس وائرس کے متعلق کیا جانتے ہیں؟
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کورونا وائرس چمگادڑوں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے تاہم یہ براہ راست منتقل نہیں ہوا بلکہ درمیان میں کوئی اور ذریعہ بھی بنا ہے، غالب امکان یہی ہے کہ درمیانی رابطہ پینگولن بنی ہے جو روایتی دوائیوں کے لیے چین میں اسمگل کی جاتی ہے۔
تاہم چین کے سائنسدانوں کی ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے پہلے مریض کا ووہان کی جانوروں کی مارکیٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی پہلے تصدیق شدہ 41 میں سے 13 افراد کا اس سے کوئی تعلق تھا۔
چین کے مایہ نازسائنسدان شی ژین لی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ کووڈ 19 کا جینیاتی نقشہ چمگادڑوں میں موجود کورونا وائرس سے نہیں ملتا۔
کنگز کالج لندن کی بائیوسیکیورٹی ریسرچر فلیپا لینزوس کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی تک اس بات کے کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ یہ وائرس ووہان کی لیب سے نکلا ہے لیکن یہ بات بھی ابھی مفروضہ ہے کہ کورونا وائرس ووہان کی مارکیٹ سے پھیلا ہے۔
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کورونا وبا کے ماخذ کے متعلق ابھی کوئی بات حتمی طور پر نہیں کی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کے بعض اشارے ملے ہیں کہ شاید یہ کسی سائنسی لیبارٹری سے پھیلا ہو لیکن اس کے لیے مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے۔